تقریباً سو سال پہلے کی بات ہے کہ راولپنڈی کے نزدیک ایک قصبہ جس کا نام گولڑہ شریف ہے، وہاں ایک بزرگ تھے، جن کا نام تھا حضرت پیر سید مہر علی شاہ گیلانی رحمة الله عليه۔
ان کے ایک بیٹے تھے ان کا نام تھا بابوجیؒ۔ اس وقت ان کی عمر نو سال یا دس سال تھی۔ جب انگریزوں نے گولڑہ شریف سے نئی نئی ٹرین چلائی تو بابوجیؒ روزانہ ٹرین کو دیکھنے ریل کی پٹڑی کے پاس چلے آتے۔ ان کے مریدوں نے بابوجیؒ سے پوچھا بابوجیؒ، آپ یہاں کیوں آتے ہیں؟
تو بابوجیؒ نے جواب دیا کہ مجھے ٹرین کے انجن سے محبت ہو گئی ہے۔
انہوں نے پوچھا کیوں محبت ہو گئی ہے؟
تو بابوجیؒ نے فرمایا کہ اس کی پانچ وجوہات ہیں؛
پہلی وجہ یہ کہ ٹرین کا انجن ٹرین کو اپنی منزل تک لے کر جاتا ہے۔
دوسری وجہ کہ یہ آخری ڈبے کو بھی ساتھ لے کر جاتا ہے۔
تیسری وجہ کہ یہ آگ خود کھاتا ہے، ڈبوں کو نہیں کھانی پڑتی۔
چوتھی وجہ کہ یہ صراط مستقیم یعنی سیدھا چلتا ہے۔
اور پانچویں وجہ کہ یہ خود ڈبوں کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ ڈبے اس کے محتاج ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں بھی کچھ لوگ انجن کی طرح ہوتے ہی تو کچھ ڈبوں کی طرح۔ ہر کوئی انجن نہیں بن سکتا، لیکن جو انجن بن جائے تو انہیں چاہیے ڈبوں کو بھی ساتھ لے کر جائے۔ اسی طرح جو خود انجن نہ ہو، اسے کسی انجن کے ساتھ لگ جانا چاہئیے تا کہ منزل تک پہنچ سکے، ورنہ سٹیشن پر کھڑا سڑ جائے گا۔
Post a Comment